۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
تخریب حرم بقیع

حوزہ/ہمارا مقصد صرف حقیقت کو بیان کرنا ہے تاکہ مسلمانوں میں آپسی اختلافات اور اس کے سنگین نتائج کے خطرہ کو کم کرکے انہیں اتحاد اور یکجہتی پیدا کی جائے اور ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کے غلط نتائج سے بچا جائے۔

حوزہ نیوز ایجنسی| پیغمبر اسلامؐ کے دور سے لے کر ابن تیمیہ (متوفی ۷۰۸ھ) اور ان کے شاگرد ابن قیم (متوفی ۷۵۱ھ)تک تقریباً سات سو پچاس برس ہو گئے تھے اور اس پوری مدت میں مسلمانوں کے درمیان ان کے شرعی مسائل میں قبروں پر عمارت تعمیر کرنے کے نام پر کسی طرح کا اختلاف، جھگڑا، بحث اور جذبات کو بھڑکانے یا انہیں نظرانداز کرنے کی بات نہیں تھی یہاں تک کہ ابن تیمیہ نے اپنے دور میں قبروں پر عمارت تعمیر کرنے کے عدم جواز کا فتویٰ دے دیا۔
اس نے یہ اعلان کیا کہ ائمہ اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قبروں پر روضے تعمیر کرنا جائز نہیں ہے اور انہیں مسجد قرار دینا یا وہاں نماز ادا کرنا شرعی نہیں ہے اس کے بعد ابن قیم جوزی کا دور آیا۔ اس نے اس سےبھی آگے بیان دیا اور کہا کہ قبروں پر جو روضے بنے ہیں ان کا گرانا واجب ہے اور ان کے گرانے اور انہیں ختم کرنے پر قدرت حاصل ہوجانے کے بعد ایک دن کے لئے بھی ان کا باقی رکھنا جائز نہیں ہے۔
اس کے بعد محمد ابن عبد الوہاب (متوفی ۱۲۰۶ھ)آیا اور اس نے مذہب و فقہ میں سختی اور زبردستی کو داخل کیا جس کی بنیاد دوسروں کو کافر ثابت کرنے، ان پر شرک کا الزام لگا کر ان کا خون مباح سمجھنےاور ان کی آل و اولاد نیز ہر اس شخص کے لئے جو ان کی نظر میں تکفیر کے اسباب میں سے کسی سبب کا مرتکب ہو اسکےلیے اسیر کرنے سے لے کر قتل کرنے تک کی سزائیں معین کیں۔ یہاں تک کہ اس نے یہ سزائیں ان افراد تک کے لئے بھی معین کیں جو دوسروں کو کافر قرار دینے کے نظرئیے میں ذرہ برابر بھی اس کی مخالفت کرتے ہوں۔
درعیہ کے حاکم  سعود کی حمایت نے محمد ابن عبد الوہاب کے افکار و نظریات کی نشر و اشاعت اور اس کی اتبدائی قدرت کو ہماہنگ کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں اس نے مختلف مناطق پر حملہ کرکے اپنے نظریات کو عملی جامہ پہنانے کی بھرپور کوشش کی۔
اس وقت سے لے کر آج تک قبروں پر روضے تعمیر کرنے کا مسئلہ وہابیوں کی جانب سے تمام مسلمانوں پر طنز و تشنیع کے لئے سب سے نمایاں اور اہم سبب بناہوا ہے۔ قبروں پر عمارتوں کی تعمیر کے نظریہ کی مخالفت کو ایسی تلوار قرار دیا گیا جو کفراور شرک کا اتہام ثابت کرنے کے لئے استعمال ہو۔ ا س کے نتیجے میں مسلمانوں میں شدید اختلاف پیدا ہوا اور اتحاد اسلامی جیسی عظیم نعمت خطرہ میں پڑ گئی۔
اس مسئلہ کی اہمیت اور اس سلسلہ میں شدید حساسیت کی بنا پر ضرورت محسوس ہوئی کہ اس موضوع کا مختلف اعتبارات سے مطالعہ کیا جائے اور پھر اس سلسلہ میں کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے۔ اس بحث سے ہمارا مقصد صرف حقیقت کو بیان کرنا ہے تاکہ مسلمانوں میں آپسی اختلافات اور اس کے سنگین نتائج کے خطرہ کو کم کرکے انہیں اتحاد اور یکجہتی پیدا کی جائے اور ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کے غلط نتائج سے بچا جائے اور ان کی دیرینہ عظمت و شوکت کو واپس لایا جائے۔ 

تحریر:سید حمیدالحسن زیدی،الاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .